حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ ایک روز کوفے کے قریب کسی مقام سے گزر رہے تھے۔ ایک گھر کے پاس ’’زاذان‘‘ نامی مشہور گویا یعنی گلوکار نہایت ہی سریلی آواز میں گا رہا تھا اور کچھ اوباش لوگ شراب کے نشے میں مست گانے بجانے کی دھنوں پر جھوم رہے تھے یہ منظر دیکھ کر حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’کتنی پیاری آواز ہے اگر یہ آواز قرأت قرآن کریم کیلئے استعمال ہوتی تو کچھ اور بات ہوتی‘‘ یہ فرما کر آپ چلے گئے بعد میں زاذان نے لوگوں سے پوچھا وہ کون تھے؟ اور کیا کہہ گئے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ مشہور صحابی عبداللہ بن مسعودؓ تھے اور یوں فرما گئے ہیں۔ یہ سن کر اس پر رقت طاری ہوگئی اور اپنا باجا زمین پر دے مارا‘ پھر روتا ہوا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا گانے بجانے سے توبہ کرکے آپؓ کی صحبت اختیار کی اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ جس کی زبان پر گندے گانے تھے اب اسکی زبان پر قرآنی ترانے تھے۔گانے بجانے کی مذمت میں چار روایات پیش ہیں ۔دو آوازوں پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے، (۱)نعمت کے وقت باجا (۲)مصیبت کے وقت چلانا۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں‘ گانے بجانے سے اپنے آپ کو بچائو کیونکہ یہ شہوت کو ابھارتے اور غیرت کو برباد کرتے ہیں اور یہ شراب کے قائم مقام ہیں اس میں نشہ کی سی تاثیر ہے۔جو گانے والی کے پاس بیٹھے کان لگا کر دھیان سے سنے تو اللہ پاک بروز قیامت اسکے کانوں میں سیسہ انڈیلے گا۔ گانا دل میں اس طرح منافقت اگاتا ہے جس طرح پانی سبزہ اُگاتا ہے جبکہ قرآن اور ذکر الٰہی دل میں اس طرح پانی لگاتے ہیں جس طرح پانی سبز گھاس اُگاتاہے۔
کشف المحجوب میں ایک روایت کا خلاصہ حاضر خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا دائود علیہ السلام کو بے حد سریلی آواز عطا فرمائی تھی آپ کی خوش الحانی سے پہاڑ وجد میں آجاتے، اڑتے پرندے گر جاتے، چرندے اور درندے آواز سن کر جنگلوں سے نکل آتے، درخت جھومنے لگتے آپکی پرسوز آواز سن کر لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا ہو جاتا ۔ گناہ پر مائل قلوب نیکی کی طرف متوجہ ہوتے تھے شیطان آپؑ کے نیکی کی دعوت کے اس انداز سے بہت پریشان تھا آخر کار اس نے بانسری اور طنبورہ بنایا اور خوب گانا بجایا۔ اب لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے جو سعادت مند تھے وہ حضرت سیدنا دائود علیہ السلام کی پرسوز آواز کے شیدائی ہوئے اور جو گمراہ تھے وہ شیطان کے سازوں اور گانوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا شیطان ہی کی ایجاد ہے۔ اسکی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ پیارے آقا سرکار نامدارﷺ نے فرمایا ’’شیطان نے سب سے پہلے نوحہ کیا اور گانا گایا‘‘۔درج بالا مختلف روایات و حکایات سے ظاہر ہوا کہ گانے باجے اور موسیقی ہرگز روح کی غذا نہیں بلکہ اس سے الٹا روحانیت تباہ ہوتی ہے۔
روح کی غذا تو ذکر اللہ ہے، روح کی غذا قرآن ہے روح کی غذا نماز ہے۔
افسوس صد کروڑ افسوس! آج کل موسیقی مسلمانوں کی رگ رگ میں اتر چکی ہے تقریباً ہر چیز میں موسیقی مسلط ہے۔ کار ہو یا ہوائی جہاز، ٹرک ہو یا بس، ٹیکسی ہو یا دکان، کارخانہ ہو یا گودام، ہوٹل ہو یا کھوکھا تقریباً ہر جگہ موسیقی کی دھنیں سنی جاتی ہے۔ بچہ آنکھ ہی موسیقی کے سروں میں کھول رہا ہے بے چارے کے پنگھوڑے کے اوپر کھلونا لٹکا دیتے ہیںجو اس کو موسیقی سناتا اور سلاتا ہے۔(شاید یہی سبب ہو کہ کئی بدنصیب سرہانے گانے چلاتے ہیں جبھی انہیں نیند آتی ہے) کھلونوں میں گڑیا ہو یا بھالو، ریل گاڑی ہو یا ہوائی جہاز سب میں موسیقی یہاں تک کہ بچے کی جوتیاں بھی موسیقی بجاتی ہیں۔ ذرا سوچیئے! یہ بچہ بڑا ہو کر موسیقی کی لعنت سے کیسے بچ سکے گا؟ یاد رکھیئے! گانے باجے اور موسیقی روح میں گاڑ پیدا کرتے ہیں، نمازوں اور عبادتوں کی لذتیں تباہ کرتے ہیں شرم حیا کا خون کرتے ہیں مسلمان خواتین کو بے پردگی پر ابھارتے ہیں اسے روح کی غذا کہنا یقیناً شیطانی اور سازشی نعرہ ہے اب گانے بجانے والوں اور بھنگڑا ڈالنے اور ناچ نخرے دکھانے والوں کو عزت کا مقام دیا جانےلگا اور انہیں فنکار، موسیقار، پاپ سنگر اور کامیڈین وغیرہ کہا جانے لگا ورنہ انکے اصلی نام کنجر، مراثی، ڈوم نقال، مسخرا، بہروپیا اور بھانڈ بھگتیاں ہے۔
آخر میں تمام مسلمان گلوکاروں اور کامیڈینوں کی خدمت میں درد بھری التجا ہے کہ ان حرام اور جہنمی کاموں سے سچی توبہ کرلیں اگر ان کاموں پر کچھ کمایا بھی تو یاد رکھیئے! یہ حرام روزی ہے آپ اتنا ہی کھائیں گے جتنا پیٹ ہے۔ اتنا ہی پہنیں گے جتنا بدن کا سائز ہے باقی گھر کے دیگر افراد استعمال کریں گے اور آخرت میں جوابدہ تو آپ ہونگے۔ دل بڑا کریں اور گانے بجانے یا کامیڈی کرنے کی وجہ سے جو رقم ملی ہے ان کو لوٹا دیں وہ نہ رہے ہوں تو انکے وارثوں کو دے دیں جو غائب ہو چکے ہیں یا جن کا یاد نہیں ان کی رقمیں انکی طرف سے شرعی فقیروں کو دے دیں اگرچہ ایسا کرنا نفس پر سخت دشوار ہے مگر یہ کیوں بھولتے ہیں کہ ہرحال میں مرنا اور قبر میں اترنا ہے اور اپنے عمل کا انجام بھگتنا ہے۔ حرام سے حاصل کی ہوئیں رقمیں نہ لوٹائیں تو یہ قبر میں سانپ بچھو بن کر لپٹ گئی تو کیا کریں گے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں